شام کے نئے حکمران احمد الشرع اور القاعدہ کے درمیان کشمکش کا جائزہ

دسمبر 2024 میں شام میں سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور شام کی سب سے بڑی جہادی تنظیم، ھیئت تحریر الشام، نے احمد الشرع عرف ابومحمد جولانی کی قیادت میں اقتدار سنبھالا۔ الشرع ماضی میں شام میں القاعدہ کا سربراہ رہا، تاہم 2016 میں اس نے القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے بعد میں ھیئت تحریر الشام کے نام سے اپنا الگ گروہ قائم کیا۔ اگرچہ وہ القاعدہ سے علیحدہ ہو چکا ہے، مگر ماضی کے تعلقات کی بنیاد پر بعض حلقوں نے اس کے اقتدار کو القاعدہ کی واپسی قرار دیا، جو کہ حقیقت کے منافی ہے۔ دراصل، القاعدہ اور الشرع کے درمیان کشیدہ تعلقات کا اندازہ القاعدہ کے اردو مجلہ “نوائے غزوہ ہند” میں شائع حالیہ سلسلہ وار انٹرویو سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، جس کا اس مضمون میں تفصیلی جائزہ شامل ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے پر القاعدہ اور اس کی علاقائی شاخوں نے مبارکباد کے پیغامات جاری کیے، لیکن ان پیغامات میں ایک محتاط لہجہ اختیار کیا گیا، جو القاعدہ کی سرد مہری کا واضح اشارہ تھا۔ ان پیغامات میں دمشق پر قبضے کو شام کے تمام جہادیوں اور عوام کی فتح قرار دیا گیا، لیکن نہ تو احمد الشرع اور نہ ہی اس کی تنظیم کا ذکر کیا گیا۔ ان ابتدائی مبارکبادوں کے بعد القاعدہ نے کئی مہینے تک شام کی بدلتی ہوئی صورتحال پر خاموشی اختیار کیے رکھی، جو مئی 2025 کے “نوائے غزوہ ہند” میں شائع سخت تنقید پر مبنی ایک انٹرویو کی صورت میں ٹوٹی۔ یہ انٹرویو شام سے تعلق رکھنے والے، القاعدہ کے عالمی جہادی فکر کے ایک اہم مفکر، ابواسامہ عبدالعزیز الحلاق کے ساتھ تھا، جسے اردو میں ترجمہ کرکے خصوصی طور پر شائع کیا گیا۔
انٹرویو کی تفصیلات میں جانے سے قبل یہ جاننا اہم ہے کہ الحلاق بظاہر ایک غیر معروف نام ہے، جو القاعدہ کے اردو مطبوعات میں پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔ تاہم، اس نوعیت کے اہم موقف کا ایک غیر معروف نام سے آنا کسی مخصوص حکمت عملی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ القاعدہ اکثر اپنے اہم ارکان کی شناخت چھپانے کے لیے رمزی ناموں کا استعمال کرتی ہے تاکہ ان کی سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو، اور ان کے بیانات کے ذریعے تنظیم کا مؤقف منظرعام پر آ سکے۔ اس کی مثال القاعدہ کے موجودہ سربراہ سمجھے جانے والے سیف العدل کی ہے، جن کے کئی مضامین مختلف رمزی ناموں سے شائع کیے گئے تاکہ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والے خطرات کے تناظر میں انہیں محفوظ رکھا جا سکے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع یعنی الحلاق کے انٹرویو کی تفصیلات پر۔ الحلاق نے الشرع کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے القاعدہ کے حامیوں کو مخاطب کیا کہ دسمبر 2024 میں دمشق پر الشرع کے قبضے کو افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے جیسی جہادی فتح نہ سمجھا جائے۔ اس نے الزام عائد کیا کہ الشرع کا اقتدار میں آنا دراصل امریکہ اور اسرائیل کے شامی جہادیوں کے ساتھ مفادات کے ملاپ کا نتیجہ ہے، جس کے تحت انہوں نے الشرع کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ اس دعوے کی دلیل میں الحلاق نے یوکرین جنگ میں امریکہ اور یورپی ممالک کی روس کے خلاف مصروفیت، اور غزہ جنگ کے بعد اسرائیل کی طرف سے ایران کو کمزور کرنے کی کوششوں کا ذکر کیا۔ اس کے مطابق، امریکہ اور اسرائیل نے شام میں ایران نواز حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سازش کی، جس کا نتیجہ الشرع کے اقتدار کی صورت میں سامنے آیا۔ چنانچہ الحلاق کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام اب امریکہ اور اسرائیل کے زیرِ اثر ہے، اور وہاں کوئی خودمختار اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی۔
"اہل شام اور پوری امت مسلمہ کے لئے صرف بشار الاسد سب سے بڑا مجرم اور سب سے بڑا خطرہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ سوریہ کو بیرونی قابضین میں سے بھی سب سے کمزور قابض یعنی صرف ایران سے ہی آذاد کرایا گیا ہے جبکہ بڑے بڑے قابضین ابھی بھی شام کی سرزمین پر اپنا قبضہ باقی رکھے ہوئے ہیں اور شام میں اپنا اثر رسوخ آپس میں بانٹے ہوئے ہیں۔"
انٹرویو میں الحلاق کا ایک اور اہم نکتہ یہ تھا کہ امریکہ اور عالمی برادری کے لیے الشرع کا قابل قبول ہونا اس لیے ممکن نہیں ہوا کہ اس نے القاعدہ سے علیحدگی اختیار کی۔ تاہم، الحلاق کے مطابق اصل وجہ یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اس امید پر ہیں کہ شام کی نئی حکومت اپنے اسلامی مقاصد اور اہداف پر سمجھوتہ کرے گی۔ الحلاق کا کہنا ہے کہ عالمی برادری یا تو امداد کی صورت میں، یا دھمکیوں کے ذریعے الشرع حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اپنے سابقہ اسلامی نعروں اور وعدوں سے دستبردار ہو جائے اور ایک “قابل قبول” حکومت بن جائے۔ اگر شام کی نئی قیادت سمجھتی ہے کہ وہ ایک حکمت عملی کے تحت مغرب کو دھوکہ دے رہی ہے، تو الحلاق کے مطابق وہ دراصل خود کو اور اپنی عوام کو دھوکہ دے رہی ہے۔ اس نے کہا کہ اقتدار کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ جہادیوں کی کامیابی نہیں بلکہ ناکامی ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو الشرع حکومت نے اختیار کیا ہے۔
الحلاق کا کہنا ہے کہ جب ۲۰۱۷ میں الشرع نے شام میں القاعدہ کی شاخ، جبہۃ النصرہ، کو تحلیل کر کے ھیئت تحریر الشام کے نام سے الگ گروہ قائم کیا، تو یہ عالمی جہاد سے مقامی جہاد کی طرف ایک منتقلی تھی۔ الحلاق نے اس رجحان کو “قطری جہاد” یا “جہاد کا قطری ماڈل” قرار دیا۔ یہ اصطلاح القاعدہ کی جانب سے پہلی بار استعمال کی گئی، اور اس کا مقصد بظاہر یہ تاثر دینا ہے کہ قطر، عالمی جہاد کو مقامی تحریکوں میں تقسیم کرکے القاعدہ کے خلاف ایک سازش میں ملوث ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ القاعدہ، الشرع کی حکومت کو ترکی کے بجائے قطر کے اثر و رسوخ میں سمجھتی ہے۔
الحلاق کے اس بیانیہ کو دیکھا جائے تو عالمی سے مقامی جہاد کی منتقلی کے حوالے سے شام اور پاکستان میں بھئ ایک دلچسپ مماثلت ہے۔ مثلاً، جب احمد الشرع نے القاعدہ سے علیحدگی اختیار کی، تو اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ اس کا مقصد صرف بشار الاسد کا خاتمہ ہے، اور وہ مغرب یا امریکہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان نے بھی کچھ اسی قسم کا مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ ان کا عالمی جہاد سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ان کا ہدف صرف پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ہیں، حالانکہ ایک وقت تھا جب القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی اور قربت عام طور پر جانی جاتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں طالبان اور اب شام میں الشرع کی قیادت کے تحت جہادیوں کی اپنی جنگ کو ملکی حدود تک محدود رکھنے کی حکمت عملی تحریک طالبان پاکستان کو بھی مقامی یا قطری ماڈل کی طرف مائل کرے گی؟
الحلاق کی انٹرویو کی اشاعت کا بنیادی مقصد القاعدہ کے عالمی جہاد کے نظریئے کی دفاع ہے کہ یہ جہادیوں کے لئے ناکامی کی نہیں بلکہ مقاصد کے حصول کے لئے موثر ذریعہ ہے۔ اس کے لئے ایک طرف تو الشرع کے اقتدار کو جہادی کامیابی کی بجائے ایک سازش قرار دے کر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ القاعدہ یا عالمی جہاد سے دستربرداری کے باوجود بھی وہ جہاد کے مقامی ماڈل پر بھروسہ کرنے کے باوجود اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب عالمی جہاد کے نظریئے کو دفاع کی واحد صورت قرار دینے کے لئے فسلطین کے جہادی گروہوں حماس یا کتائب القسام کی مثال دہتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ عالمی جہاد کی بجائے اپنی جنگ کو فلسطین تک محدود کیئے ہوئے تھے مگر اب وہ اسرائیل کے حملوں سے بچاو کے لئے دنیا بھر میں حامیوں کو اسرائیل پر حملوں کا اپیل کرکے عالمی جہاد کی اہمیت کو تسلیم کرررہپے ہیں۔